قسط نمبر پانچ: وہ غار جو خاموش سانس لیتا ہے

ہمیں چلتے ہوئے بارہ گھنٹے سے زیادہ ہو چکے تھے۔ راستہ کہیں تنگ، کہیں خطرناک، اور کہیں ایسا تھا کہ صرف گھٹنوں کے بل رینگنا پڑا۔

پھر اچانک، وہ گھڑی آئی جس نے ہمیں روک دیا۔

سرنگ کا اختتام ایک بڑی، گول محراب پر ہوا — جیسے فطرت نے خود اپنے ہاتھوں سے ایک دروازہ تراشا ہو۔ اس کے پیچھے اندھیرا تھا… لیکن وہ اندھیرا سا لگتا بھی نہیں تھا۔

ہم نے اندر قدم رکھا، اور جیسے ہی روشنی پھیلائی، ہماری آنکھیں چندھیا گئیں۔

یہ ایک وسیع و عریض غار تھی — گنبد کی شکل کی چھت، بلند اور ہموار، جیسے کسی قدیم معمار نے اسے تراشا ہو۔ چاروں طرف چٹانیں، کہیں کہیں نمک کے سفید دھبے، اور درمیان میں… پانی!

ایک جھیل — بالکل ساکت، شفاف اور گہری۔

ہم دم بخود رہ گئے۔

“یہ… یہ تو ناقابلِ یقین ہے،” پروفیسر کی آواز میں حیرت تھی۔ “یہاں کوئی ہوا کا گزر ہے، اس لیے ہم زندہ ہیں۔ مگر یہ غار… یہ تو قدرت کی ایک مکمل دنیا ہے۔”

ہم نے جھیل کے کنارے بیٹھ کر پانی کو چھوا — ٹھنڈا اور خالص۔ اس کا ذائقہ معمولی سا نمکین تھا، مگر پینے کے قابل۔

ہنس خاموشی سے پانی کے عکس میں اپنا چہرہ دیکھ رہا تھا۔

“یہاں کوئی اور بھی آیا ہے؟” میں نے آہستہ سے پوچھا۔

پروفیسر نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ “کیوں پوچھا؟”

میں نے جواب دیا، “یہاں چٹانوں پر خراشیں ہیں۔ بالکل سیدھی لکیریں، جیسے کسی نے چاقو سے نشان لگائے ہوں۔”

پروفیسر کچھ دیر خاموش رہے، پھر بولے، “یہاں قدرت کے علاوہ کسی انسان کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب ہماری نظر کا دھوکہ ہو۔ زیرِ زمین ماحول میں چیزیں ویسی نظر نہیں آتیں جیسی اصل میں ہوتی ہیں۔”

میں نے دل ہی دل میں سوچا:
“اگر ہم یہاں پہلے انسان نہیں ہیں، تو کیا وہ واپس جا سکے تھے؟”


(فلیش بیک)
ہمارے ساتھ جو رسیاں، کلہاڑیاں، بارومیٹر، اور پانی کے چھوٹے تھیلے تھے — ان سب کو لے کر ہم ہر قدم ماپ کر اٹھا رہے تھے۔ پروفیسر نے کہا تھا، “یہ سفر صرف ہمت کا نہیں، حساب کا ہے۔ اگر ایک پیمائش بھی غلط ہو گئی تو ہم ہمیشہ کے لیے بھٹک سکتے ہیں۔”

ہم نے جھیل کے پاس رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔


صبح کی جگہ یہاں صرف گھڑی کا وقت تھا۔

ہم نے آگے جانے کا فیصلہ کیا — غار کے دوسرے کنارے پر ایک سرنگ ہمیں بلا رہی تھی۔

لیکن جیسے ہی ہم وہاں پہنچے… ہمیں زمین پر کچھ ملا۔

ایک خالی مٹی کا پانی کا برتن۔

انسان کا بنایا ہوا۔

اور اس پر کندہ تھا —
“۱۸۲۵، ژاک گوتیے”

پروفیسر نے بے ساختہ کہا:
“ہم سے پہلے کوئی یہاں آیا تھا… اور شاید وہ واپس نہیں جا سکا۔”